बुधबार, १२ बैशाख २०८१

لفظ آزادی کا کھیل

✍ *وسیم أكرم فرید

१३ चैत्र २०७४, मंगलवार २३:५९ मा प्रकाशित

 

لفظ آزادی بھی بڑے كمال كا لفظ ہے۔ یہ لفظ بڑے عجیب وغريب کھیل كِھلاتا ہے۔ یہ اتنا خوبصورت اور خوشنما ہے کہ ہر کوئی اس پر فریفتہ اور ہر شخص اس کا دل داده ہے۔ اس کے حسن وجمال کے جادو سے ہر کوئی مسحور ہے، اس کے اندر اتنی کشش اور مقناطيسيت ہے کہ ہر کوئی اس کی طرف بے اختیار کھنچتا چلا جاتا ہے۔
تبھی تو اہل مغرب نے بڑی مکاری اور چالاکی سے اس لفظ كا استعمال کرکے آزادئی نسواں جیسے دلکش اور دلفریب نعرے كو ايجاد کیا-

اور اس نعرے کے ظاہری چمک دمک اور خوبصورتی نے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو دھوکے میں ڈال دیا اور وہ اس نعرے کے پس پردہ اہل مغرب کی ناپاک اور مذموم عزائم کو سمجھ نہ سکے اور ان کے بچھائے گئے جال میں پھنستے چلے گئے.
پھر كيا تھا آزادئی نسواں کے نام پر پوری دنیا میں بدتمیزی کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ اور بہت سارے لوگ اس طوفان کے چپيٹ میں آنے سے خود کو بچا نہ سکے۔
اور آزادئی نسواں کا نعرہ زور شور اور جوش و خروش سے ہر چہار جانب گنگنانے لگے-
اور صنف نازک كو اس بات كا احساس دلانے لگےکہ ان کے ساتھ استحصال ہورہا ہے۔
ان کی حق تلفي کی جارہی ہے۔ انہیں گھروں میں محصور کرکے ایک گھٹن بھری زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے،
انھیں دنیاوی ترقی کے حصول کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ چلنے سے دستبردار کیا جارہا ہے-

لهذا انہیں ان کا حق ملنا چاہیے انہیں بھی آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا مکمل حق حاصل ہے، انہیں بھی مردوں کے ساتھ کندھے سے كندها ملا كر چلنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ قید و بند کے بےجا بندشیں ان کے لیے سم قاتل ہیں.
لیکن افسوس گھروں کی زینت بننے والی یہ صنف نازک ان کے ناپاک عزائم اور مذموم سازش کو نہ سمجھ سکی اور نہایت ہی آسانی کے ساتھ ان کے پُرفریب نعرے میں اپنی آواز ملانے لگی اور ان کے بچھائے گئے جال میں پھنستی چلی گئی.

پھر کیا تھا ہوس پرستوں کو اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے جس فحاشی اور بد کاری کے لیے ايڑي چوٹی کا زور لگانا پڑتا تھا وہی كام ان کے لیے اب بالکل پیس آف کیک (peace of cake) ہو گیا
کہ جب چاہیں جیسے چاہیں جہاں چاہیں انہیں اپنا خوراک بنا سکیں.۔
نتيجتا دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے سماج و معاشرے میں آزادی، برابری، حقوق اور ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کے نام پر ليو ان ریلیشن شپ Live in relationship، ڈیٹنگ dating، اون نائٹ اسٹینڈ one night stand ، اور ہم جنس پرستی جیسی تباہ کن برائیوں نے مضبوطی سے اپنا پنجہ جما لیا۔
اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ لوگ انہیں برائیاں تصور کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اُنہیں اپنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں. اور بڑی چالاکی سے اُن تمام قبيح اور رذیل حرکتوں کے حاملین کو اعلی درجے کا شہری شمار کرلیا گیا۔ انہیں سماج و معاشرے میں ہائی اسٹینڈرڈ لائف گزارنے کا خطاب مل گیا۔ اور دنيا انہیں دور حاضر كا با اخلاق، باوقار اور باشعور قوم گرداننے لگی۔
درحقیقت یہی مغرب کی سازش تھی یہی اُن کی چال تھی کہ وه اپنے غیر مہذب، اور گھٹیا ترین تہذيب كو دنیا کا سب سے مہذب اور متمدن تہذيب شمار کروائے اور دیگر تہذیبوں کو بالعموم اور اسلامی تہذیب كو بالخصوص كمتر بتائے تاکہ اس کے پیروکار احساس کمتری کا شکار ہوکر قعرمذلت میں جا گریں.

اور بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ ان کے اس نا پاک سازش كو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں قوم و ملت کے نام نہاد تعلیم یافتہ، روشن خیالی اور لبرلزم کے علمبردار اور خود کو دانشوران قوم گرداننے والوں نے لمحہ بہ لمحہ انکی مدد کی۔
اور انہوں نے آزادی کے نام پر صنف نازک كو ان کے گھروں سے نکال کر بازار تک لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اور حد تو تب ہوگئی جب کسی نے اُن برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی، خواتین کو اُن برائیوں سے بچنے کی تلقین کی تو اس پر دقیانوسی اور فرسودہ خیالی كا لیول چسپاں کر ديا گیا،
اُسے خواتین كا سخت حریف اور دشمن کہا گیا. اُس پر خواتین کو غلام بنانے اور اُنھیں گھروں کے اندر قید کرنے كا الزام لگایا گیا. اور اُس کی آواز كو کچلنے کے لیے نام نہاد مسلم عورتوں كو براہ راست سڑکوں پر اُتار دیا گیا۔

اُس کی تازہ ترین مثال ہم نے حال ہی میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر پاکستان جیسے اسلامی ملک میں مشاہدہ کیا كہ کچھ خواتین اپنے ہاتھوں میں “میرا جسم میری مرضی” كا پلے کارڈز اٹھائے احتجاج درج کراتے ہوئے اپنی مكمل آزادی كا مطالبہ کر رہی تھیں.
کاش اِن مغرب زدہ مسلم عورتوں کو بتایا جائے کہ بلا شبہ یہ جسم تو تمہارا ہی ہے مگر یہ جو تم كر رہی ہو شاید یہ تمہاری مرضی نہیں ہے … اور اس مظاہرے کے ذریعہ جس آزادی کی تم خواہاں ہو، شايد اس میں تمہاری مرضی شامل نہیں بلکہ پردے کے پیچھے کسی اور کی مرضی بڑی صفائی سے اپنا كام انجام دے رہی ہے… کسی اور کی کج تھیوری ہے جو تمہیں دھوکے میں رکھ کر یہ کام کرنے پر مجبور کر رہی ہے اور تمہیں اس کا احساس تک نہیں ہے.. مجھے یقین ہے کہ تمہاری اپنی فطری مرضی تمہیں ایسے گھناؤنے قدم اٹھانے پر مجبور ہی نہ کرتی۔ تم یوں بےحیائی اور بے شرمی کا ثبوت دیتے ہوئے سڑکوں پر نہ اترتی.،
کیوں کہ تم تو مسلم گھرانوں کی شمع ہو تمہارا كام تو اپنے گھروں كو منور كرنا تھا، خاندانوں کے درمیان تمھیں الفت و محبت کی قندیل روشن کرنا تھا۔ تمہارا مقام و مرتبہ تو اپنے گھروں کو جنت نشاں بنانا تھا….
ليكن ہائے افسوس تمہیں اسلام کی عطاء کردہ یہ عزت و وقار راس نہ آئی، تمھیں گھروں کا ملکہ بنایا گیا تھا لیکن تم شمع انجمن بن گئیں تمھارے لیے گھروں کی چہار دیواری باعث عزت تھی لیکن تم تو زینتِ محفل بن گئیں،
تم نے آزادئی نسواں کے نام پر اپنے عفت و عصمت کو نیلام کر دیا..آزادی نسواں کے نام پر تم نے اپنے جسم کا سودا کر لیا
اے کاش تم سمجھ سکتیں!

✍ *وسیم أكرم فرید*

तपाईंको प्रतिकृयाहरू

प्रधान सम्पादक

कार्यालय

  • सुचनाबिभाग दर्ता नं. ७७१
  • news.carekhabar@gmail.com
    विशालनगर,काठमाडौं नेपाल
Flag Counter